۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

شکیب

قسط : دوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


سیرتِ امام بخاریؒ کی ایک جھلک 


از قلم : محمد شکیب


*اخلاق اور طرز زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

آپؒ کا آج جو مقام ہے۔ آج آپکی جو عزت و رفعت ہے۔ جو آپکی جمع کی ہوئ بخاری نامی کتاب کو قرآن کے بعد کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اور آفتابِ بخاریٰ و امام المحدثین سید المحدثین و فخر المجتہدین جیسے بلند ترین القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے جہاں امام بخاری کی قوتِ ذہانت و فطانت ہے تو وہیں ساتھ ساتھ انکے تقوی و للہیت، ادب و اخلاص، عاجزی و انکساری اور سخاوت و شجاعت کا بھی بڑا دخل ہے۔ کیونکہ لاکھ کوششیں بھی ہو لیکن مددِ خدا اور رضاۓ الۂ نہ ہو۔ تو آدمی اپنی ذہانت کے ہوتے ہوۓ بھی پستی کے عمیق وادیوں میں گرتا دکھائ دیتا ہے، بے عملی کے نتیجہ میں زمین تلے دبتا نظر آتا ہے اور خالق سے بے رخی کی بناء پر خون کے آنسو روتا نگاہ میں پڑتا ہے۔

لیکن قربان جائے فخر بخاریٰ امام بخاری پر کہ آپ ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی خوبیوں سے بھی آراستہ تھے۔ اور علم کے ساتھ ساتھ تقوی و للہیت اور زہد و قناعت سے بھی پیراستہ تھے۔ 


یہی وجہ تھی کہ کبھی علم کی تلاش میں جبال خراسان پر دکھائ دے رہے ہیں۔ کبھی کوہ لبنان پر مقیم ہے۔ کبھی بصرہ کا سفر در پیش ہے۔ تو کبھی کوفہ میں درس دے رہے ہیں۔ کبھی بھوک کی بناء پر جنگلات کے پتے چبا رہے ہیں۔ کبھی تنگی کے باعث کپڑے سارے بِھگ جانے پر درس میں آنے سے رک رہے ہیں۔ کبھی مسافر خانے کی تعمیر میں مزدوروں کو اینٹیں اور گاراہ پہنچانے میں مشغول ہیں۔ کبھی تیر اندازی کے مشاقی بن کر گھوڑے پر میدان کا رخ کررہے ہیں۔ کبھی نماز میں اتنے مستغرق ہے کہ بھڑ کے سترہ جگہ ڈنک مارنے پر بھی ہوش نہیں ہے۔

 *مزاج میں نرمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

مزاج میں اتنی نرمی تھی کہ ایک مرتبہ باندی کے دھکّا دینے پر آپ نے فرمایا کسطرح چلتی ہو؟ باندی نے جوابا کہا کہ راستہ نہ ہو تو کیسے چلوں؟ باندی کے اسطرح جواب پر بجاۓ غصہ ہونے کے آپ نے اسے آزادی کا پروانہ سنادیا۔ 

 *احتیاط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

مزاج میں بہت زیادہ احتیاط تھا اسیلیے لوگوں کے خلاف زبان کھولنے اور غیبت کرنے سے بے انتہاء پرہیز کرتے تھے۔ خود ہی فرماتے ہیں کہ جب سے مجھے علم ہوا کہ غیبت کرنی حرام ہے۔ اس وقت سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی اور مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن بھی میرے خلاف کھڑا ہونے والا کوئ نہ ہوگا۔

 *عبادت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

رمضان کریم میں لوگوں کے ساتھ ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے۔ اور تنِ تنہا پورا مہینہ نصف شب سے سحر تک نماز میں تلاوت کیا کرتے۔ اس طرح تین دن میں ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے۔ اور پھر صبح سے لیکر شام تک ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے۔ اس طرح کل ملاکر آپ پورے رمضان شریف میں اکتالیس 41 قرآنیں ختم کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ آپ کا رات میں ہمیشہ تیرہ رکعات نماز پڑھنے کا معمول تھا۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو ہمیشہ ایسی حالت میں رہنا چاہیے کہ اگر وہ دعا کریں تو اس کی دعا رد نہ کی جائے۔اور جب بخاری کتاب کے لکھنے کا وقت آیا۔ تو حدیث کو کتاب میں اس وقت تک شامل نہ کرتے جب تک کہ آپ غسل کرکے دورکعت نماز نہ پڑھ لیتے۔ اور اس کے لکھنے یا نہ لکھنے کے سلسلہ میں استخارہ نہ کرلیتے۔

 *جفاکشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

وراق کہتے ہیں کہ امام بخاری کتاب التفسیر لکھتے وقت رات میں بندرہ بیس بار اٹھتے اور چراغ جلاکر حدیثوں پر نشان لگا کر سو جاتے تھے۔ تو میں نے ایک روز عرض کیا' آپ مجھ سے یہ کام کیوں نہ لیتے ہیں آپ نے فرمایا کہ تم جوان ہو۔ اور میں تمہاری نیند خراب کرنی نہیں چاہتا۔

 *امام بخاری کی شہرت وعزت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

آپ کے انہیں خدامات جلیلہ و صفات حسنہ اور اخلاق حمیدہ کی بنیاد پر لوگ آپ کے دیدار کے لیے بے انتہاء تڑپتے رہتے۔ اور استفادہ کے لیے دور دور سے راہ تکتے رہتے۔ 

تکمیلِ علم کے بعد جب آپکا وطن لوٹنا ہوا۔ تو سارا بخاریٰ آپ کے استقبال کے لیے تین میل تک چل آیا اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ آپ پر اشرفیوں و مٹھائیوں کو نچھاآور کرتے ہوئے وطن لے گیا۔

جب آپ نے نیشاپور کا رخ کیا تو سارا شہر امنڈ آیا اس وقت موجود امام مسلم کہتے ہیں کہ میں نے ایسی شان و شوکت نہ کسی حاکم کی دیکھی اور نہ کسی اہلِ علم کی اور محمد بن منصور کہتے ہیں کہ اس وقت صرف گھڑ سواروں کی تعداد چار ہزار تھیں۔ باقی سواریوں کا کوئ اندازہ نہیں۔

اور علم و عمل کا مرکز کہلانے والا شہر شہرِ بغداد پر جب امام بخاری کی حاضری ہوئ۔ تو اہل بغداد نے آپ کی شہرت سن کر آپ کے امتحان کے لیے سو احادیث کی سند ومتن کو خلط ملط کرکے دس آدمیوں کے حوالے کردیا۔ ان دس آدمیوں نے امام بخاری کی آمد پر یکے بعد دیگرے سوالات کرنے شروع کردیے۔ امام بخاری نہایت سکون وقار سے ان سب احادیث کو سنکر فرمارہے تھے کہ میں نہیں جانتا۔ ایک طرف علماء ومحدثین کا جم غفیر ہے۔ دوسری طرف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ جہلاء امام بخاری کے اس انداز کو نہ سمجھ کر آپکو بے حیثیت اور کم علم گرداننے لگیں۔ جب سارے سوالات ختم ہوۓ تو امام بخاری نے ہر سائل کا رخ کیا اور اس کی غلط بیان کی ہوئ حدیث کو درست کرکے پیش کیا۔ آپ کے اس طرح جواب دینے پر اہل بغداد حیراں و سرگراں ہوگئے۔ اور پھر انہیں آپ کی ذہانت و قابلیت پر ایسے ہی یقین ہوگیا جس طرح آفتاب نکلنے پر دن کا ہوتا ہے۔


امام بخاری کی آمد جب اٌس وقت کے وسعتِ علم و اشاعت حدیث کے لحاظ سے اپنی ایک ممتاز حیثیت رکھنے والے شہر شہرِ بصرہ میں ہوئ تو صبح ہوتے ہی حدیث کے اشتیاق میں فقہاء متکلمین محدثین اور حفاظ کی بڑی بڑی جماعتیں جوق در جوق آنی شروع ہوگئیں اور انکا اشتیاق اور بھی بڑگیا۔ جب امام بخاری نے یہ فرمایا کہ بصرہ والوں یہ حدیث تمہارے پاس فلاں سند سے پہنچی ہے جبکہ اس کی دوسری سند یہ بھی ہے۔

 *سفر آخرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

خالد بن احمد ذیلی سلطنت بخاری کا گورنر تھا۔اس نے امام بخاری کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ آپ اپنا وقت نکال کر دربار شاہی میں آکر ہمیں درس حدیث دیں امام صاحب نے اسی پیغامبر کے ذریعہ یہ کہلا بھیجا کہ میں آپ کے دربار کا خوشامدی نہیں بننا چاہتا ہوں۔ اس میں علم کی بے قدری ہے پھر اس نے درخواست کی کہ اگر آپ دربار پر تشریف نہیں لاسکتے۔ تو ہمارے شہزادوں کے لیے خاص وقت دیں جس میں عام لوگوں کی کوئ جگہ نہ ہو۔ آپ نے فرمایا علمِ حدیث سرکار دو عالمؐ کی میراث ہے اس میں عام و خاص سب کا حق مساویانہ ہے۔ میرا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ جسکو آنا ہے شوق سے آکر مستفید ہو۔ کسی کے لیے کوئ روک ٹوک نہیں ہے۔ اس صاف جواب اور حق گوئی سے والئ بخاریٰ سخت برہم ہوگیا۔ اور اسی وقت سے اس نے امام بخاری کے خلاف سازیشیں رچنی شروع کردی اور اپنے کارندوں کے ذریعہ شہرِ بخاریٰ میں یہ مشہور کرنے لگا کہ امام بخاری قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل ہے۔ لوگ بنا سمجھے فتّینوں کے فتنہ میں پڑنے لگیں اور امام بخاری کے خلاف ناشائستہ الفاظ بکنے لگیں۔ جس کے نتیجہ میں آپ کو شہر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پھر امام صاحب نے بخاریٰ چھوڑ کر بیکند کا رخ کیا لیکن وہاں بھی امام صاحب کے خلاف افواہیں جنم لے چکی تھیں۔ اسی کشمکش میں سمرقندیوں کا ایک پیغام آ پہنچا کہ آپ ہمارے پاس آئیں۔ اور درس کے ذریعہ مسند حدیث کو زینت بخشیں۔ چناچہ آپ نے درخواست منظور کرلی۔ اور جانے کے لیے نکلے ہی تھے کہ بدن نے ساتھ دینا چھوڑ دیا۔ جسم میں کمزوری و ضعف آنے لگا۔ اور سواری پر ہی عیدالفطر کے مبارک دن 256ھج 62 برس کی عمر میں آپؒ مالک حقیقی سے جاملے۔


 *اساتذہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

جن اساتذہ سے انہوں نے کسب فیض کیا ان کی تعداد ایک ہزار اسّی (1080) بتائی جاتی ہے۔ ان میں امام احمد بن حنبل، علی بن المدینی، یحییٰ بن معین،اسحاق بن راہویہ، محمد یوسف، ابراہیم الاشعث۔ قتیبہ بن سعید خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

 *تلمیذ خاص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

 مسلم بن حجاج، ابو عیسیٰ محمد ترمذی 


 *کتب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔* 

"الجامع الصحیح" کے علاوہ امام بخاری نے متعدد کتب تحریر کیں مثلاً:

التاریخ الکبیر

التاریخ الصغیر

الادب المفرد

الجامع الکبیر

التفسیر الکبیر

جزء رفع الیدین

کتاب الضعفاء

جزء القراءۃ

کتاب بر الوالدین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Report Page