*/

*/

From

*گستاخ رسول صلی الله علیه و سلم کی توبہ کی قبولیت و عدم قبولیت سے متعلق فقہ حنفی میں تین مواقف و ان کی توضیح اور ان میں تطبیق*

*✍️ پہلا مؤقف*
موقف اول یہ ہے کہ گستاخ رسول صلی الله علیه و آله و سلم کا مرتکب بہر صورت واجب القتل ہے اور اس کی توبہ مطلقا کسی صورت میں قبول نہیں کی جائے گی خواہ وہ قبل الاخذ یعنی مقدمہ کے اندراج یا گرفتاری سے پہلے توبہ کرے یا بعد الاخذ مقدمہ کے اندراج یا گرفتاری کے بعد توبہ کرے ہر صورت برابر ہے کسی صور ت میں بھی قطعا قبولیت توبہ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اس موقف پر دلائل درج ذیل ہیں قرآن مجید میں ہے

*1 ولئن سالتهم ليقولن انما کنا نخوض ونلعب قل ابالله وايته ورسوله کنتم تستهزئون لا تعتذروا قد کفرتم بعد ايمانکم*

*ترجمة* *اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ ہم تو صرف سفر کاٹنے کے لئے بات چیت اور دل لگی کرتے تھے فرمادیجئے کیا تم الله تعالی اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول صلی الله علیه وآله وسلم کے ساتھ مذاق کر رہے تھے اب تم معذرت مت کرو بے شک تم اپنے ایمان کے اظہار کے بعد کافر ہوگئے ہو*

*التوبة 9 : 65 ، 66*

مفسرین کرام اس آیت مبارکة کی تفسیر میں فرماتے ہیں

*{قد کفرتم} قد اظھرتم الکفر بايذاء الرسول والطعن فيه*

*ترجمة*
*تم کافر ہو چکے ہو یعنی تمھارا کفر حضور صلی الله علیه وآله وسلم کو اذیت وتکلیف دینے اور آپ صلی الله علیه وآله وسلم کی شان اقدس میں طعن وتشنیع کرنے کی وجہ سے ظاہر ہوچکا ہے*

*عبد الله بن عمر بيضاوی المتوفی 1286ھ رحمه الله تعالی انوار التنزيل واسرار التاويل 3 : 155 بيروت لبنان دارالفکر* *ابو السعود محمد بن محمد المتوفی 982ھ رحمه الله تعالی تفسير ابو السعود 4 : 80 بيروت لبنان دار احياء التراث العربي*

*علامة آلوسی المتوفی 1270ھ رحمه الله تعالی روح المعاني 10 : 131 بيروت لبنان دارا حياء التراث العربی*

*2 ان الذین یوذون الله و رسوله لعنھم الله فی الدنیا و الاخرة و اعد لھم عذابا مھینا*

*ترجمة*
*بے شک جو لوگ الله تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیه وآله وسلم کو اذیت دیتے ہیں الله تعالی ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے*

*الاحزاب 33 : 57*

✍️ اس آیت کریمة سے احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیة المتوفی 728ھ رحمه الله تعالی استدلال کرتے ہوئے جمھور کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

*ان المسلم يقتل اذا سب من غير استتابة وان اظھر التوبة بعد اخذه کما هو مذهب الجمھور*

*ترجمة*
*کوئی بھی مسلمان جو حضور صلی الله علیه وآله وسلم کی بے ادبی وگستاخی کرے گا اسے توبہ کا موقع دیئے بغیر قتل کر دیا جائے اگر چہ وہ گرفتاری کے بعد توبہ کرلے یہی مذہب جمھور ہے*

*ابن تيمية صاحب رحمه الله تعالی الصارم المسلول علی شاتم الرسول 3 : 635 بيروت لبنان دار ابن حزم*

✍️طاھر بن احمد بن عبد الرشید البخاری الحنفی المتوفی 542ھ رحمه الله تعالی فرماتے ہیں
*من شتم النبی صلی الله علیه و سلم و اھانه او اعابه فی امور دینه او فی شخصه او فی وصف من اوصاف ذاته سواء کان الشاتم مثلا من امته او غیرھا و سواء کان من اھل الکتاب او غیره ذمیا کان او حربیا سواء کان الشتم او الاھانة او العیب صادرا عنه عمدا او سھوا او غفلة او جدا او ھزلا فقد کفر خلودا بحیث ان تاب لم یقبل توبته ابدا لا عند الله و لا عند الناس و حکمه فی الشريعة المطھرة عند متاخرین المجتھدین اجماعا و عند المتقدمین القتل قطعا*

*ترجمة*
*جس شخص نے رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم کو گالی دی آپ کی توہین کی دینی یا شخصی اعتبار سے آپ پر عیب لگایا یا آپ کی صفات میں سے کسی صفت پر نکتہ چینی کی تو چاہے یہ شاتم رسول مسلمان ہو یا غیر مسلم اہل کتاب ہو یا غیر اہل کتاب ذمی ہو یا حربی خواہ یہ شتم و اہانت عمدا ہو یا سہوا سنجیدگی سے ہو یا بطور مذاق وہ دائمی طور پر کافر ہوا اس طرح کہ اگر وہ توبہ بھی کر لے تو اس کی توبہ نہ عنداللہ قبول ہو گی نہ عند الناس اور شریعت مطھرة متاخرین و متقدمین تمام مجتھدین کے نزدیک اس کی سزا اجماعا قتل ہے*

*طاھر بن عبد الرشید البخاری الحنفی رحمه الله تعالی خلاصة الفتاوی ج 2 جزء 4 : 386 : مکتبة رشیدیة کوئٹہ*

اس قول کا حوالہ ہمیں فقہ حنفی کے محقق علماء کے ہاں ملتا ہے
*✍️ مولانا انور شاہ کشمیری صاحب رحمه الله تعالی نے اکفار الملحدین ص 93 عربی میں اس عبارت کا ذکر کیا ہے*
*✍️ ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی صاحب نے وحید الدین خان کے جواب میں لکھی گئی کتاب ''اسلام میں اہانت رسول کی سزا" ص 46 پر یہ عبارت نقل کی ہے*
*✍️ دارالعلوم کراچی کے فتوی نمبر 859 / 2 مؤرخة 24 / 2 : 1427ھ میں بھی اسکا حوالہ ہے*
*✍️ مفتی رفیع عثمانی صاحب حفظه الله تعالی نے اس حوالہ سے اسلامی نظریاتی کونسل کو جو جواب دیا اسکے آخر میں بھی یہ عبارات نقل کی ہے اسلامی نظریاتی کونسل سالانہ رپورٹ 2003/2004 ص 144*
البتہ یہ ملحوظ رہے کہ خلاصة الفتاوی کی اس عبارت میں توبہ کی عدم قبولیت کا عند الله جو فرمایا گیا ہے یہ مرجوح بات ہے راجح بات قبولیت توبہ کا اثبات ہے عند الله جیساکہ آگے تفصیل ان شاء الله آرہی ہے

✍️ زین الدین ابن نجیم الحنفی المتوفی 989ھ رحمه الله تعالی فرماتے ہیں کہ ایسا شخص جو نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کے ساتھ قلبی طور پر بغض وعداوت رکھتا ہے وہ مرتد ہے جبکہ کھلم کھلا آپ صلی الله علیه وآله وسلم کو گالی دینے والا بطریق اولی کافر و مرتد ہے

*يقتل عندنا حدا فلا تقبل توبته فی إسقاطه القتل*

*ترجمة*
*ہمارے نزدیک (یعنی مذہب احناف کے مطابق) اسے حدا قتل کردیا جائے گا اور حد قتل کو ساقط کرنے کے حواله سے اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی*

*ابن نجيم رحمه الله تعالی البحر الرائق 5 : 136 بيروت لبنان دارالمعرفة*

✍️ محمد بن علی بن محمد علاء الدین حصنی الدمشقی الحصکفی الحنفی المتوفی 1088ھ رحمه الله تعالی فرماتے ہیں

*الکافر بسب نبی من الانبياء فانه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقا ولو سب الله تعالی قبلت لانه حق الله تعالی والاول حق عبد لا يزول بالتوبة ومن شک فی عذابه وکفره کفر*

*ترجمة*
*انبیاء کرام علیھم الصلوات و التسلیمات میں سے کسی نبی علیه الصلوة و السلام کی توہین کرکے جو شخص کا فر ہو اسے حدا قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ کسی صورت میں قبول نہیں ہوگی اگر اس نے شان الوہیت میں گستاخی کی (پھر توبہ کی تو اس کی توبہ قبول ہو جائے گی اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے جو توبہ سے معاف ہوجاتا ہے جبکہ حضور صلی الله علیه وآله وسلم کی شان میں گستاخی یہ حق عبد ہے جو توبہ سے زائل نہیں ہوتا اور جو شخص اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے*

*حصکفی رحمه الله تعالی الدر المختار 4 : 231 ، 232 بيروت لبنان دارالفکر*

✍️ محمد بن عبد الواحد ابن الھمام الحنفی المتوفی 861ھ رحمه الله تعالی
فرماتے ہیں

*کل من ابغض رسول الله صلی الله علیه و سلم بقلبه کان مرتدا فالسباب بطریق اولی ثم یقتل حدا عندنا فلاتعمل توبتة فی اسقاط القتل*

*ترجمة*
*جو آدمی دل میں رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم سے بغض رکھے گا وہ مرتد ہوجائیگا پس گالی دینے سے بطریق اولی مرتد ہوجائیگا پھر ہمارے نزدیک وہ قتل کردیا جائیگا اور اسقاط قتل میں اس کی توبہ کام نہیں آئیگی*

*شرح فتح القدیر 6 : 91 بیروت لبنان دار الکتب العلمیة*

*✍️ دوسرا مؤقف*
دوسرا مؤقف یہ ہے کہ گستاخ رسول صلی الله علیه وآله وسلم کی سزا حدا قتل ہی ہے لیکن قبولیت توبہ کے امکان کے ساتھ بایں طور پر اگر وہ قبل الاخذ گرفتاری یا مقدمة کے اندراج سے پہلے تائب ہو تو یہ توبہ لاسقاط الحد ہوگی اس توبہ سے قتل کی سزا اٹھ جائے گی اکثر شوافع اور بعض احناف رحمھم الله تعالی و کثر الله تعالی سوادھم نے اس مؤقف کو اختیار کیا ہے

✍️ قاضی القضاة یعقوب بن ابراھیم امام ابو یوسف الحنفی المتوفی 182ھ رحمه الله تعالی نے فرمایا

*وايما مسلم سب رسول الله صلى الله عليه وسلم او كذبه او عابه او تنقصه فقد كفر بالله وبانت منه امراته فان تاب والا قتل*

*ترجمة*

*اور کوئی بھی مسلمان جس نے حضور صلی الله علیه وآله وسلم کو گالی دی یا آپ صلی الله علیه وآله وسلم کی تکذیب اور عیب جوئی کی یا آپ کی شان اقدس میں تنقیص و اہانت کا مرتکب ہوا تو وہ کافر ہو جائے گا اور بیوی سے اس کا نکاح بھی ٹوٹ جائے گا اگر وہ توبہ کرے تو درست وگرنہ اسے قتل کر دیا جائے گا*

*امام ابویوسف رحمه الله تعالی الخراج لابی یوسف ص 293 ابن عابدين رحمه الله تعالی ردالمحتار 4 : 234 بیروت لبنان دار الفکر*

✍️ محمد امین بن عمر امام ابن عابدین شامی المتوفی 1252ھ رحمه الله تعالی نے نعمان بن ثابت امام اعظم ابو حنیفة المتوفی 150ھ رحمه الله تعالی کا دوسرا قول اس طرح بیان کیا ہے

*ان کان مسلما يستتاب فان تاب والا قتل کالمرتد*

*ترجمة*
*اگر کوئی مسلمان (شان نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم میں گستاخی کرے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا پھر اگر وہ توبہ کرے تو بہتر ورنہ مرتد کی طرح قتل کر دیا جائے گا*

*ابن عابدين رحمه الله تعالی ردالمحتار 4 : 233 بیروت لبنان دار الفکر*

*توجہ توجہ توجہ 👇*
✍️ احناف رحمھم الله تعالی و کثر الله تعالی سوادھم میں سے بعض ائمہ کرام نے قبل الاخذ توبہ کی جو صورت بیان کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گستاخ رسول صلی اللہ علیه وآله وسلم کو بھی عام مرتدین کی صف میں شامل کرتے ہوئے اس پر بھی ارتداد کے احکام جاری کئے ہیں چونکہ احناف رحمھم الله تعالی و کثر الله تعالی سوادھم کے نزدیک مرتد کو توبہ کا موقع دیا جاتا ہے اتمام حجت کے لئے اس پر بھی توبہ پیش کی جاتی ہے مگر اس کے باوجود اسے تعزیرا قید بھی کیا جاتا ہے غرضیکہ بعض ائمہ احناف رحمھم الله تعالی و کثر الله تعالی سوادھم نے حد ساقط کرنے کے لئے قبول توبہ کا جو قول کیا ہے اس میں سبب اختلاف یہ ٹہرا کہ ان کے نزدیک حضور صلی الله علیه وآله وسلم کی بے ادبی وگستاخی اور اہانت و تنقیص ایسا کفر ہے جو باعث ارتداد ہے اس لئے انہوں نے ارتداد کی صورت میں قبولیت توبہ کے احکام کا گستاخ رسول صلی الله علیه و آله و سلم پر بھی اطلاق کر دیا ہے بنابریں ان کے نزدیک اس کے لئے توبہ کی گنجائش پیدا ہوگئ ہے لیکن متاخرین احناف رحمھم الله تعالی و کثر الله تعالی سوادھم نے فرمایا ہے کہ امر واقعہ یہ ہے جو شخص حضور اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی گستاخی و اہانت کے سبب کافر ومرتد ہوا ہے وہ عام مرتدین سے مستثنی ہے عام مرتدین کے لئے اتمام حجت کے طور پر قبولیت توبہ کے معاملات ہوں گے جبکہ شاتم رسول کے لئے قبولیت توبہ کی کوئی صورت ہی نہیں
فافھم

اسی چیز کو
✍️زین الدین ابن نجیم الحنفی المتوفی 989ھ رحمه الله تعالی البحر الرائق میں يعرض الاسلام علی المرتد (مرتد پر اسلام پیش کیا جائیگا) کے تحت عام مرتدین کے احکام بیان کرتے ہوئے حضور صلی الله علیه وآله وسلم کی اہانت کی بنا پر جو مرتد ہوا اسے اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں ساتھ ہی کچھ اور مستثنیات کا بھی ذکر کرتے ہیں

*يستثنی منه مسائل الاولی الردة بسب النبی صلی الله عليه و سلم*

*ترجمة*
*ارتداد کے احکام میں سے چند مسائل مستثنی ہیں اس میں پہلا مسئلہ نبی کریم صلی الله علیہ وآله وسلم کو سب وشتم کرنے کی وجہ سے مرتد ہونا ہے*

*ابن نجيم رحمه الله تعالی البحرالرائق 5 : 135 ، 136 بیروت لبنان دار الفکر*

✍️محمد بن علی بن محمد علاء الدین حصنی الدمشقی الحصکفی المتوفی 1088ھ رحمه الله بھی عام مرتدین کے احکام سے گستاخ رسول صلی الله علیه وآله وسلم کو مستثنی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں

*کل مسلم ارتد فتوبته مقبولة إلا الکافر بسب نبی من الانبياء فانه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقا*

*ترجمة*
*ہر مسلمان جو مرتد ہوا اس کی توبہ قبول ہوگی سوائے اس کافر کے جو انبیاء کرام علیھم الصلوات و التسلیمات میں سے کسی نبی کی گستاخی کے باعث کافر ہوا اسے حدا قتل کر دیا جائے گا اور مطلقا (قبل الاخذ اور بعد الاخذ) اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی*

*حصکفی رحمه الله تعالی الدرالمختار 4 : 231 ، 232 بیروت لبنان دار الفکر*

*✍️ تیسرا مؤقف*
سزاء قتل حدا واجب ہونے کے اعتبار سے تیسرا مؤقف پہلے مؤقف ہی ہے البتہ تیسرے مؤقف میں قبل الاخذ قبولیت توبہ کا ذکر ہے لیکن اس قبولیت توبہ کا مفہوم ان کے ہاں عند الله مقبولیت کا ہے عند الناس قبولیت مراد نہیں ہے لھذا اس کی توبہ سے آخرت کی سزا وعقوبت تو مرتفع ہوجائے گی مگر توبہ سے حد قتل قطعا ساقط نہیں ہو گی ذہن نشین رہے کہ موقف ثالث کے مطابق قبل الاخذ عندا لله قبولیت توبہ سے اس شخص کو یہ فائدہ ہو گا کہ سزاء موت کے بعد اس پر احکام اسلام کا اجراء ہوگا نماز جنازہ ادا کی جائے گی تکفین وتدفین میں بھی اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جائے گا

اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سزاء قتل حدا واجب ہونے کے اعتبار سے درحقیقت تیسرا موقف بھی پہلا مؤقف ہی ہے فرق صرف قبل الاخذ قبولیت توبہ کا ہے لیکن اس قبولیت توبہ کو اسقاط قتل کے ساتھ متعلق نہیں کیا گیا بلکہ قبولیت توبہ کا تعلق عند الله مقبولیت کے ساتھ خاص ہے یعنی اس توبہ کی بناء پر فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا اس کا نماز جنازہ پڑھا جائے اور اس کی تکفین و تدفین کی جائے یا نہ کی جائے پہلے لھذا پہلے اور تیسرے موقف میں یہی بات قدرے مشترک ہے کہ سزاء موت کسی بھی صور ت میں مرتفع نہ ہو گی حدا صورت اس کا نفاذ ہو گا سو اس اعتبار سے تیسرا موقف بھی حقیقتًا پہلا موقف ہی قرار پاتا ہے

✍️ محمد امین بن عمر امام ابن عابدین شامی المتوفی 1252ھ رحمه الله تعالی تیسرے موقف کے حوالے سے گستاخ رسول کی مطلقا عدم قبولیت توبہ اور اس پر بہر صورت حد قتل کے اجراء و نفاذ اور بعد از توبہ اس پر مسلمانوں کے احکام جاری کرنے کے متعلق فرماتے ہیں

*فيجب قتل هؤلاء الاشرار الکفار تابوا او لم يتوبوا لانهم ان تابوا واسلموا قتلوا حدا علی المشهور واجری عليهم بعد القتل احکام المسليمن وان بقوا علی کفرهم وعناد هم قتلوا کفرا واجری عليهم بعد القتل احکام المشرکين*

*ترجمة*
*ایسے شریر وگستاخ کفار کو قتل کرنا واجب ہے خواہ یہ توبہ کریں یا نہ کریں اس لئے کہ اگر یہ (گستاخی و اہانت کے بعد) توبہ کر لیں اور دوبارہ مسلمان ہو بھی جائیں تو انہیں مذہب مشہور کے مطابق حدا قتل کر دیا جائے گا توبہ اور دوبارہ اسلام قبول کرنے کی وجہ سے قتل کے بعد ان پر مسلمانوں کے احکام تدفین وتکفین جاری کئے جائیں گے اور اگر یہ اپنے کفر اور عداوت ودشمنی پر قائم رہیں تو انہیں کفر وارتداد کی وجہ سے قتل کر دیا جائے گا اور قتل کے بعد ان پر مشرکین کے احکام جاری کئے جائیں گے*

*ابن عابدين رحمه الله تعالی تنقيح الفتاوی الحامدية 1: 103 بيروت لبنان دارالفکر*

دوسری جگہ
✍️ محمد امین بن عمر امام ابن عابدین شامی المتوفی 1252ھ رحمه الله تعالی نبی کریم صلی اللہ علیه وآله وسلم کی شان میں گستاخی کے مرتکب اس تیسرے مؤقف سے متعلق فرماتے ہیں

*فانه يقتل حدا ولا تقبل توبته لان الحد لايسقط بالتوبة وافاد أنه حکم الدنيا واما عند الله تعالی فھی مقبولة*

*ترجمة*
*اسے حدا قتل کر دیا جائے گا اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اس لئے کہ حد توبہ سے ساقط ومعاف نہیں ہوتی یہ حکم اس دنیا سے متعلق ہے جبکہ آخرت میں الله رب العزت کے ہاں اس کی توبہ مقبول ہوگی*

*ابن عابدين رحمه الله تعالی رد المحتار 4 : 230 ، 231 بيروت لبنان دارالفکر*

*ثمرة بحث👇👇👇*
پہلے اور تیسرے مؤقف کے مطابق گستاخ رسول صلی الله علیه کو حدا قتل ہی کیا جائیگا فرق صرف اتنا ہے کہ مؤقف ثالث میں قبل الاخذ توبہ کی مقبولیت کا ذکر ہے جس کا مطلب عند الله مقبولیت ہے عند الناس اسے حدا قتل ہی کیا جائیگا اس توبہ کا فائدہ یہ ہوگا اس پر بعد الموت احکامات مسلمانوں والے جاری ہونگے جبکہ دوسرے مؤقف سے ایسا مرتد جو گستاخی رسول صلی الله علیه و آله و سلم کا مرتکب ہو وہ مستثنی ہے جیساکہ ابن نجیم اور امام حصکفی رحھما الله تعالی کی عبارات ماقبل میں گذر گئ

#از_محمد_محسن_طارق_الماتریدی

Report Page